Friday, December 9, 2022

اَعرابی کے سوالات اور عَرَبی آقا ﷺ کے جوابات/Question of villager and answer of Hadrat Muhammad Peace be upon him

اَعرابی کے سوالات اور عَرَبی آقا ﷺ کے جوابات حضرتِ سیِّدُنا جلال الدین سیوطی شافعی علیہ رحمۃُ اللہِ القویلکھتے ہیں : حضرتِ سیدنا ابوالعباس مُسْتَغْفِرِیعلیہ رحمۃُ اللہِ القوی طلبِ عِلْم کے لئے مِصْر گئے ، وہاں پرانہوں نے حدیث کے بہت بڑے عالم حضرت سیدنا ابوحامد مصری علیہ رحمۃُاللہِ القوی سے حدیثِ خالد بن ولدم(رضی اللہ تعالٰی عنہ)سنانے کی درخواست کی تو انہوں نے مجھے ایک سال کے روزے رکھنے کا حکم فرمایا۔ اُن کے اِس حکم پر عمل کے بعد حضرتِ سدرنا ابوالعباس مُسْتَغْفِرِیعلیہ رحمۃُ اللہِ القوی دوبارہ حاضرِ خدمت ہوئے تو حضرت سد نا ابوحامد مصری علیہ رحمۃُ اللہِ القوی نے اپنی سند سے حدیثِ خالد بن ولد (رضی اللہ تعالٰی عنہ) سنائی ۔چنانچہ حضرت سدقنا خالد بن ولدو رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک اَعرابی (یینئ عرب شریف کے دیہاتی) نے بارگاہِ رسالت مآب مںن حاضر ی دی اور عرض کی :دناح وآخرت کے بارے مںھ کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تورسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:پوچھو! جو پوچھنا چاہتے ہو۔ آنے والے نے عرض کی:میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں۔ مدنی آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:اللہ سے ڈرو،سب سے بڑے عالم بن جاؤ گے ۔ عرض کی : میں سب سے زیادہ غنی بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:قناعت اِختیار کرو، غنی ہوجاؤ گے۔ عرض کی : میں لوگوں میں سب سے بہتر بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچاتا ہو ،تم لوگوں کیلئے نفع بخش بن جاؤ۔ عرض کی : میں چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ عدل کرنے والا بن جاؤں۔ ارشادفرمایا:جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو، سب سے زیادہ عادِل بن جاؤ گے۔ عرض کی : میں بار گاہِ الٰہی میں خاص مقام حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:ذکرُ اللہ کی کثرت کرو،اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بن جاؤ گے ۔ عرض کی: اچھا اور نیک بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہواور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ عرض کی: میں کامِل ایمان والا بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:اپنے اخلاق اچھے کر لو،کامل ایمان والے بن جاؤ گے۔ عرض کی: (اللہ تعالیٰ کا) فرمانبردار بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کے فرائض کا اہتمام کرو،اس کے مُطِیع( وفرمانبردار) بن جاؤ گے۔ عرض کی: (روزقیامت) گناہوں سے پاک ہوکر اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا: غسلِ جنابت خوب اچھی طرح کیا کرو،اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملو گے کہ تم پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ عرض کی: میں چاہتا ہوں کہ روزِ قیامت میرا حشر نورمیں ہو۔ ارشادفرمایا:کسی پر ظُلْم مت کرو،تمہارا حَشْر نُور میں ہوگا۔ عرض کی: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے۔ ارشادفرمایا:اپنی جان پر اور مخلوقِ خدا پر رحم کرو ،اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔ عرض کی:گناہوں میں کمی چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا: اِستغفار کرو،گناہوں میں کمی ہوگی۔ عرض کی: زیادہ عزت والا بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے بارے میں شکوہ وشکایت مت کرو،سب سے زیادہ عزت دار بن جاؤ گے۔ عرض کی:رِزْق میں کشادگی چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:ہمیشہ باوضو رہو،تمہارے رزق میں فراخی آئے گی ۔ عرض کی:اللہ و رسول کا محبوب بننا چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:اللہ ورسول کی محبوب چیزوں کو محبوب اور ناپسند چیزوں کو ناپسند رکھو۔ عرض کی:اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امان کا طلب گار ہوں۔ ارشادفرمایا:کسی پر غصہ مت کرو،اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امان پاجاؤ گے۔ عرض کی:دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں۔ ارشادفرمایا:حرام سے بچو،تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔ عرض کی: چاہتا ہوں کہ اللہعَزَّوَجَلَّ مجھے لوگوں کے سامنے رُسوا نہ فرمائے۔ ارشادفرمایا:اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو ،لوگوں کے سامنے رُسوا نہیں ہوگے۔ عرض کی:چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری پردہ پوشی فرمائے۔ ارشادفرمایا: اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپاؤ،اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا۔ عرض کی: کون سی چیز میرے گناہوں کو مٹاسکتی ہے؟ ارشادفرمایا:آنسو، عاجزی اور بیماری ۔ عرض کی: کون سی نیکی اللہعزوجل کے نزدیک سب سے افضل ہے؟ ارشادفرمایا:اچھے اخلاق،تواضُع، مصائب پر صبر اور تقدیر پر راضی رہنا۔ عرض کی:سب سے بڑی برائی کیا ہے؟ کون سی برائی اللہعزوجل کے نزدیک سب سے بڑی ہے؟ ارشادفرمایا:برے اخلاق اور بُخْل ۔ عرض کی:اللہ تعالیٰ کے غَضَب کو کیا چیز ٹھنڈا کرتی ہے ؟ ارشادفرمایا:چپکے چپکے صدقہ کرنااور صِلہ رحمی۔ عرض کی:کونسی چیز دوزخ کی آگ کو بجھاتی ہے؟ ارشادفرمایا:روزہ۔(جامع الاحادیث ،۱۹/۴۰۵ ، حدیث : ۱۴۹۲۲) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حدیث کے راوی حضرتِ سیدنا ابوالعباس مُسْتَغْفِرِیعلیہ رحمۃُ اللہِ القوی کاشوقِ عِلْم مرحبا کہ ایک حدیث سننے کے لئے ایک سال کے روزے رکھنے کی مَدَنی فیس ادا کرنے پرتیار ہوگئے ۱؎،اس میں اُن اسلامی بھائیوں کے لئے دَرْس ہے جوفی زمانہ آسان مواقع میسر ہونے کے باوجود علمِ دین سیکھنے سے جی چُراتے ہیں۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد نصیحت وحکمت کے 25مَدَنی پھول مذکورہ بالا سوالات و جوابات سے ہمیں نصیحت وحکمت کے بے شمار مَدَنی پھول چُننے کو ملتے ہیں ،آئیے!’’ حصولِ علمِ دین ‘‘، ’’اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش ‘‘جیسی اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ ان مَدَنی پھولوں کی خوشبو اپنے دل ودماغ میں بساتے ہیں ،چنانچہ (1) سوال پوچھنے کی اجازت طلب کی اعرابی نے سب سے پہلا سوال تو یہ کیا کہ میں دنیا وآخرت کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ،اس سے ہمیں یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ جب کسی عالمِ دین سے کوئی سوال کرنا ہوتو ادباًپہلے اس سے سوال پوچھنے کی اجازت طلب کرلی جائے ۔علمِ دین کے حصول میں سوال کی بڑی اہمیت ہے ، سوال کو علم کی چابی قرار دیا گیا ہے چنانچہ: سوال علم کی چابی ہے امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مَروی ہے : علم خزانہ ہے اور سُوال اس کی چابی ہے، اللہعَزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کرو کیونکہ اس (یعنی سوال کرنے کی صورت ) میں چار اَفراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔سُوال کرنے والے کو ،جواب دینے والے کو، سننے والے اوران سے مُحَبَّت کرنے والے کو۔(الفردوس بماثور الخطاب،۲/۸۰،حدیث:۴۰۱۱) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد  

Friday, November 25, 2022

Shaq Sadar ‎شق صدر

شق صدر ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک فرزند ''ضمرہ ''دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے،چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور ان کے شوہر دونوں بدحواس ہو کر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے،حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہرنے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمکار کر پوچھا کہ بیٹا! کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کرشگاف کو سی دیالیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ (1)(مدارج النبوۃ ج2 ص21) یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰذا بہت جلد تم ان کو ان کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے 1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت، قسم دوم، باب اول، ج۲،ص۲۱ملخصاً والمواہب اللدنیۃ ، ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱،ص۸۲ بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں،خدا کی قسم! میرے نور نظر پر ہر گز ہر گز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کرکے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے۔(1) شق صدر کتنی بار ہوا؟ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورۂ ''الم نشرح'' کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ چار مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس سینہ چاک کیا گیا اور اس میں نور و حکمت کا خزینہ بھرا گیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے 1۔۔۔۔۔۔المواہب اللدنیۃ ، ذکر رضاعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، ج۱،ص۸۲ وشرح الزرقانی علی المواھب ، شق صدرہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۱،ص۲۸۰،۲۸۱

Friday, September 30, 2022

دودھ پینے کا زمانہ

سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی ''حضرت ثویبہ'' کا دودھ نوش فرمایا پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے دودھ سے سیراب ہوتے رہے، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔(1) (مدارج النبوۃ ج2 ص18) شرفاء عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے گردو نواح دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے دیہات کی صاف ستھری آب وہوامیں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص اور فصیح عربی زبان بھی سیکھ جاتے تھے کیونکہ شہر کی زبان باہر کے آدمیوں کے میل جول سے خالص اور فصیح و بلیغ زبان نہیں رہا کرتی۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ''بنی سعد'' کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اس سال عرب میں بہت سخت کال پڑا ہوا تھا، میری گود میں ایک بچہ تھا، مگر فقر و فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے۔ رات بھر وہ بچہ بھوک سے تڑپتا اور روتا بلبلاتا رہتا تھا اور ہم اس کی دلجوئی اور دلداری کے لئے تمام رات بیٹھ کر گزارتے تھے۔ ایک اونٹنی بھی ہمارے پاس تھی۔ مگر اس کے بھی دودھ نہ تھا۔ مکہ مکرمہ کے سفر میں جس خچر پرمیں سوار تھی وہ بھی اس قدر لاغر تھا کہ قافلہ والوں کے ساتھ نہ چل سکتا تھا میرے ہمراہی بھی اس سے تنگ آ چکے تھے۔ بڑی بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو جو عورت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ یتیم ہیں تو کوئی عورت آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی،کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہیں تھی۔ ادھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی قسمت کا ستارہ ثریا سے زیادہ بلند اور چاند سے زیادہ روشن تھا،ان کے دودھ کی کمی ان کے لئے رحمت کی زیادتی کا باعث بن گئی، کیونکہ دودھ کم دیکھ کر کسی نے ان کو اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے شوہر ''حارث بن عبدالعزیٰ'' سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں خالی ہاتھ واپس جاؤں اس سے تو بہتر یہی ہے کہ میں اس یتیم ہی کو لے چلوں، شوہر نے اس کو منظور کر لیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس دریتیم کو لے کر آئیں جس سے صرف حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہی کے گھر میں نہیں بلکہ کائناتِ عالم کے مشرق و مغرب میں اجالا ہونے والا تھا۔ یہ خداوند قدوس کا فضل عظیم ہی تھا کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوئی ہوئی قسمت بیدار ہو گئی اور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آغوش میں آ گئے۔ اپنے خیمہ میں لا کر جب دودھ پلانے بیٹھیں تو باران رحمت کی طرح برکاتِ نبوت کا ظہور شروع ہو گیا، خدا کی شان دیکھیے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک پستان میں اس قدر دودھ اترا کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی اور ان کے رضاعی بھائی نے بھی خوب شکم سیر ہو کر دودھ پیا، اور دونوں آرام سے سو گئے، ادھر اونٹنی کو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے تھے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شوہر نے اس کا دودھ دوہا۔ اور میاں بیوی دونوں نے خوب سیر ہو کر دودھ پیااور دونوں شکم سیر ہو کر رات بھر سکھ اور چین کی نیند سوئے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا شوہر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ برکتیں دیکھ کر حیران رہ گیا،اور کہنے لگا کہ حلیمہ! تم بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ واقعی مجھے بھی یہی امید ہے کہ یہ نہایت ہی بابرکت بچہ ہے اور خدا کی رحمت بن کر ہم کو ملا ہے اور مجھے یہی توقع ہے کہ اب ہمارا گھر خیروبرکت سے بھر جائے گا۔(1) حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی گودمیں لے کر مکہ مکرمہ سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تومیرا وہی 1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم دوم،باب اول،ج2،ص19،20ملخصاً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج1،ص

Monday, September 26, 2022

برکات نبوت کا ظہور

برکات نبوت کا ظہور جس طرح سورج نکلنے سے پہلے ستاروں کی روپوشی،صبح صادق کی سفیدی، شفق کی سرخی سورج نکلنے کی خوشخبری دینے لگتی ہیں اسی طرح جب آفتاب رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تواطراف عالم میں بہت سے ایسے عجیب عجیب واقعات اور خوارق عادات بطور علامات کے ظاہر ہونے لگے جو ساری کائنات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ بشارت دینے لگے کہ اب رسالت کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔ چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، ناگہاں بارانِ رحمت سے سرزمین عرب کا سر سبز و شاداب ہو جانا،اور برسوں کی خشک سالی دفع ہو کر پورے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جانا، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا، فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ جانا، کسریٰ کے محل کا زلزلہ، اور اس کے چودہ کنگوروں کا منہدم ہو جانا،''ہمدان'' اور ''قم'' کے درمیان چھ میل لمبے چھ میل چوڑے ''بحرهٔ ساوہ'' کا یکایک بالکل خشک ہو جانا، شام اور کوفہ کے درمیان وادی ''سماوہ'' کی خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے ''بصریٰ''کے محل روشن ہو گئے۔یہ سب واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور علیہ الصلوات والتسلیمات کی تشریف آوری سے پہلے ہی ''مبشرات'' بن کر عالم کائنات کو یہ خوشخبری دینے لگے کہ(1) ؎ مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہرآنے والا ہے گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے قبل اعلان نبوت جو خلاف عادت اور عقل کو حیرت میں ڈالنے والے واقعات صادر ہوتے ہیں ان کو شریعت کی اصطلاح میں ''ارہاص'' کہتے ہیں اور اعلان نبوت کے بعد انہی کو ''معجزہ'' کہا جاتا ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا تمام واقعات ''ارہاص'' ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت 1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃوشرح الزرقانی،ولادتہ...الخ، ج1،ص21831

Wednesday, February 16, 2022

ummahat ul momineen

 اَلْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

    سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہنآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زوجیت کے شرف کی وجہ سے امہات المؤمنین کے لقب سے سرفراز ہوئیں،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ِربانی ہے :

وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ  

ترجمہ کنزالایمان:اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں(پ22،الاحزاب:6)

    امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ قول نقل کیاہے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن حرمت میں مؤمنین کی مائیں ہیں اور مؤمنوں پراسی طرح حرام ہیں جس طرح ان کی مائیں حرام ہیں۔

 (الدرالمنثورفی التفسیرالمأثور،سورۃ الاحزاب،تحت الآیۃ:۶،ج۶،ص۵۶۶)

 علامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن یعنی جن سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے نکاح فرمایا،چاہے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال ظاہری سے پہلے ان کاانتقال ہواہو یاحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعدانھوں نے وفات پائی
ہو،یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اورہر امتی کے لیے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم وواجب الاحترام ہیں۔

 (شرح العلامۃ الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات،ج۴،ص۳۵۶)

    قرآن پاک کی ان آیات مبارکہ سے بھی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی بلند پایہ شان کا اظہار ہوتا ہے

وَمَنۡ یَّقْنُتْ مِنۡکُنَّ لِلہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَاۤ اَجْرَہَا مَرَّتَیۡنِ ۙ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ

ترجمہ کنزالایمان:اور جو تم میں فرمانبردار رہے اللہ اور رسول کی اور اچھا کام کرے ہم اسے اوروں سے دونا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کی روزی تیار کررکھی ہے اے نبی کی بیبیو تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔(پ۲۲،الاحزاب:31،32)
    ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی تعداداور ان کے نکاحوں کی ترتیب کے بارے میں مؤرخین کا قدرے اختلاف ہے ۔مگر گیارہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے ہی انتقال ہوگیا تھا
مگر نو بیبیاں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات اقدس کے وقت موجود تھیں۔
   ان گیارہ امت کی ماؤں میں سے چھ خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم وچراغ تھیں جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں:

(۱) خدیجہ بنت خویلد (۲) عائشہ بنت ابوبکر صدیق (۳) حفصہ بنت عمر فاروق (۴)ام حبیبہ بنت ابوسفیان (۵) ام سلمہ بنت ابوامیہ (۶) سودہ بنت زمعہ

اورچار ازواج مطہرات خاندان قریش سے نہیں تھیں بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں وہ یہ ہیں:

(۱) زینب بنت جحش (۲) میمونہ بنت حارث (۳) زینب بنت خزیمہ
(۴) جویریہ بنت حارث اور ایک زوجہ یعنی صفیہ بنت حیی ،یہ عربی النسل نہیں تھیں بلکہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھیں۔

    اس بات میں بھی کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔

( شرح العلامۃ الزرقانی، المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات، ج۴،ص۳۵۹)

ان کے مولیٰ کے ان پر کروڑوں درود           ان کے اصحاب وعترت پہ لاکھوں سلام
پارہائے صحف غنچہائے قدس                 اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام
اہل اسلام کی مادران شفیق                    بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام
                                        (حدائق بخشش،حصہ دوم، ص۲۲۳)

Sunday, November 28, 2021

حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف

    حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے:

(۱)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۲) بن عبداللہ (۳) بن عبدالمطلب (۴) بن ہاشم (۵)بن عبد مناف(۶)بن قصی(۷)بن کلاب(۸)بن مرہ(۹)بن کعب (۱۰)بن لوی(۱۱)بن غالب(۱۲)بن فہر(۱۳)بن مالک(۱۴) بن نضر (۱۵) بن کنانہ(۱۶) بن خزیمہ(۱۷) بن مدرکہ(۱۸) بن الیاس (۱۹) بن مضر (۲۰) بن نزار(۲۱) بن معد(۲۲)بن عدنان ۔(1)


             (بخاری ج 1، باب مبعث النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)


اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شجره نسب یہ ہے:

(1) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(2) بن آمنہ(3)بنت وہب(4) بن عبد مناف(5) بن زہرہ(6) بن کلاب(7) بن مرہ۔(2)


1۔۔۔۔۔۔صحیح البخا ری،کتاب مناقب الانصا ر،باب مبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ج2،ص573

2۔۔۔۔۔۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اولاد عبد المطلب،ص48


Monday, February 6, 2012