Friday, September 30, 2022

دودھ پینے کا زمانہ

سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی ''حضرت ثویبہ'' کا دودھ نوش فرمایا پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے دودھ سے سیراب ہوتے رہے، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔(1) (مدارج النبوۃ ج2 ص18) شرفاء عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے گردو نواح دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے دیہات کی صاف ستھری آب وہوامیں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص اور فصیح عربی زبان بھی سیکھ جاتے تھے کیونکہ شہر کی زبان باہر کے آدمیوں کے میل جول سے خالص اور فصیح و بلیغ زبان نہیں رہا کرتی۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ''بنی سعد'' کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اس سال عرب میں بہت سخت کال پڑا ہوا تھا، میری گود میں ایک بچہ تھا، مگر فقر و فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے۔ رات بھر وہ بچہ بھوک سے تڑپتا اور روتا بلبلاتا رہتا تھا اور ہم اس کی دلجوئی اور دلداری کے لئے تمام رات بیٹھ کر گزارتے تھے۔ ایک اونٹنی بھی ہمارے پاس تھی۔ مگر اس کے بھی دودھ نہ تھا۔ مکہ مکرمہ کے سفر میں جس خچر پرمیں سوار تھی وہ بھی اس قدر لاغر تھا کہ قافلہ والوں کے ساتھ نہ چل سکتا تھا میرے ہمراہی بھی اس سے تنگ آ چکے تھے۔ بڑی بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو جو عورت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ یتیم ہیں تو کوئی عورت آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی،کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہیں تھی۔ ادھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی قسمت کا ستارہ ثریا سے زیادہ بلند اور چاند سے زیادہ روشن تھا،ان کے دودھ کی کمی ان کے لئے رحمت کی زیادتی کا باعث بن گئی، کیونکہ دودھ کم دیکھ کر کسی نے ان کو اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے شوہر ''حارث بن عبدالعزیٰ'' سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں خالی ہاتھ واپس جاؤں اس سے تو بہتر یہی ہے کہ میں اس یتیم ہی کو لے چلوں، شوہر نے اس کو منظور کر لیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس دریتیم کو لے کر آئیں جس سے صرف حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہی کے گھر میں نہیں بلکہ کائناتِ عالم کے مشرق و مغرب میں اجالا ہونے والا تھا۔ یہ خداوند قدوس کا فضل عظیم ہی تھا کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوئی ہوئی قسمت بیدار ہو گئی اور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آغوش میں آ گئے۔ اپنے خیمہ میں لا کر جب دودھ پلانے بیٹھیں تو باران رحمت کی طرح برکاتِ نبوت کا ظہور شروع ہو گیا، خدا کی شان دیکھیے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک پستان میں اس قدر دودھ اترا کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی اور ان کے رضاعی بھائی نے بھی خوب شکم سیر ہو کر دودھ پیا، اور دونوں آرام سے سو گئے، ادھر اونٹنی کو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے تھے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شوہر نے اس کا دودھ دوہا۔ اور میاں بیوی دونوں نے خوب سیر ہو کر دودھ پیااور دونوں شکم سیر ہو کر رات بھر سکھ اور چین کی نیند سوئے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا شوہر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ برکتیں دیکھ کر حیران رہ گیا،اور کہنے لگا کہ حلیمہ! تم بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ واقعی مجھے بھی یہی امید ہے کہ یہ نہایت ہی بابرکت بچہ ہے اور خدا کی رحمت بن کر ہم کو ملا ہے اور مجھے یہی توقع ہے کہ اب ہمارا گھر خیروبرکت سے بھر جائے گا۔(1) حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی گودمیں لے کر مکہ مکرمہ سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تومیرا وہی 1۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت،قسم دوم،باب اول،ج2،ص19،20ملخصاً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج1،ص

Monday, September 26, 2022

برکات نبوت کا ظہور

برکات نبوت کا ظہور جس طرح سورج نکلنے سے پہلے ستاروں کی روپوشی،صبح صادق کی سفیدی، شفق کی سرخی سورج نکلنے کی خوشخبری دینے لگتی ہیں اسی طرح جب آفتاب رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تواطراف عالم میں بہت سے ایسے عجیب عجیب واقعات اور خوارق عادات بطور علامات کے ظاہر ہونے لگے جو ساری کائنات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ بشارت دینے لگے کہ اب رسالت کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔ چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، ناگہاں بارانِ رحمت سے سرزمین عرب کا سر سبز و شاداب ہو جانا،اور برسوں کی خشک سالی دفع ہو کر پورے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جانا، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا، فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ جانا، کسریٰ کے محل کا زلزلہ، اور اس کے چودہ کنگوروں کا منہدم ہو جانا،''ہمدان'' اور ''قم'' کے درمیان چھ میل لمبے چھ میل چوڑے ''بحرهٔ ساوہ'' کا یکایک بالکل خشک ہو جانا، شام اور کوفہ کے درمیان وادی ''سماوہ'' کی خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے ''بصریٰ''کے محل روشن ہو گئے۔یہ سب واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور علیہ الصلوات والتسلیمات کی تشریف آوری سے پہلے ہی ''مبشرات'' بن کر عالم کائنات کو یہ خوشخبری دینے لگے کہ(1) ؎ مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہرآنے والا ہے گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے قبل اعلان نبوت جو خلاف عادت اور عقل کو حیرت میں ڈالنے والے واقعات صادر ہوتے ہیں ان کو شریعت کی اصطلاح میں ''ارہاص'' کہتے ہیں اور اعلان نبوت کے بعد انہی کو ''معجزہ'' کہا جاتا ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا تمام واقعات ''ارہاص'' ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت 1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃوشرح الزرقانی،ولادتہ...الخ، ج1،ص21831